Thursday 24 December 2015

روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد، 24دسمبر2015

Saturday 31 October 2015

<Previous>
 کوہالہ یا باب کشمیر............تاریخ کے آئینہ میں 
تحقیق و تحریر: عبیداللہ علوی
مورخ، انتھروپولوجسٹ ، بلاگر اور صحافی
********************************* 
دریائوں کے کنارے دنیا میں تقریبا ہر ملک میں شہر آباد ہیں، اسی طرح قدیم وتستا، کشن گنگا اور آج کے دریائے جہلم کے شرقی اور غربی کنارے کے مری سے بارہ کلو میٹر شمال اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے جنوب میں بیس کلو میٹر کی مسافت پر کوہالہ کا دوسو سالہ ایک ٹائون آباد ہے جسے رنجیت سنگھ کے تخت لاہور پر سترہ سو نناوے میں قبضہ کے بعد جب سرکل بکوٹ سمیت مری اور ہزارہ کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کیا تو مقامی قبائل میں شدید بے چینی پیدا ہوئی کیونکہ اس خالصہ راج نے اس علاقے میں آٹھ صدیوں سے قائم گکھڑ حکومت کا نہ صرف خاتمہ کیا بلکہ پر سکون اور ترقی یافتہ کوہسار کے زرعی تمدن کو بھی زوال آمادہ کیا، اٹھارہ سو اکتیس کے سانحہ بالا کوٹ کے بعد تو یہ صورتحال ہو گئی تھی کہ دریائے کنہار، دریائے جہلم کے کناروں پر مجاہدین نے جام شہادت نوش کر کے کوہسار کی ایک نئی تاریخ مرتب کر ڈالی جو اہلیان کوہسار کی جرات، شجاعت اور بے لوث جہاد کی ایک سنہری داستان کی حیثیت رکھتی ہے۔
کوہالہ کے نام کی اصلیت
تاریخ و تمدن ہند میں کوہالہ ایک قد یم موسیقار، دیوی، مشروب اور مقامات کا بھی قدیم نام ہے، یہ سنسکرت کے دو الفاظ "کو" اور "ہالہ" کے مجموعہ ہے جس کا مطلب ناقابل فہم زبان ہے،دوسرا معنی ایک روحانی مشروب کا ہے تیسرا ترجمہ موسیقی کا آلہ بھی ہے، انڈولوجی کے ایک سکالر پنڈورانگ وامان کین اپنی کتاب ہسٹری آف سنسکرت پوئیٹک میں کوہالہ کا ویدک مفہوم خوشبو قرار دیتے ہیں، کوہالہ ہندو بچوں کے نام بھی ہوتے ہیں، کوہالہ بوہی ایک طبی پودے کا نام بھی ہے، جبکہ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا میں مختلف مقامات کا نام بھی کوہالہ ہے، زیر بحث کوہالہ باب کشمیر ہے جہاں سے اہل ہند صدیوں سے کشمیر کے راستے ہزارہ اور پنجاب آتے رہے ہیں، اس روٹ پر قرنوں کے سفر اور اختلاط سے ایک نئی زبان ڈھونڈی وجود میں آئی جس کا ستر فیصد اثاثہ یہاں کے قدیم کیٹھوال قبیلہ سے منسوب کیٹھوالی زبان کا ہے، اگر دیکھا جائے تو لفظ کوہالہ ڈھونڈی زبان کے لفظ "کوہال" کی جدید شکل ہے جس کے معنے موجودہ دور میں اسی زبان کے متبادل لفظ میں "سرنی" یا گئو خانہ کے ہیں جہاں مویشی باندھے جاتے ہیں لیکن چونکہ اس کوہالہ سے نشیب میں کنیر پل کے پار گوجر کوہالہ بھی موجود ہے، گوجر برادری برصغیر کی قدیم آریائی قبیلہ کی ایک شاخ ہے اس لئے لفظ کوہالہ کا وہی معانی اور مفہوم قابل قبول ہو گا جو گوجری میں ہو گا، انڈولوجی کے ایک اور سکالر رالف ایل ٹرنر اپنی مرتب کردہ لغت اے کمپیریٹو ڈکشنری آف انڈ و آرین لینگویجز، جلد سوئم کے صفحہ ایک سو تریاسی میں لفظ کومال کی ذیل میں کوھالہ کے معنی نرم، نوجوان اور پیارہ کے بتاتے ہیں، لہذا گوجری کے اس مفہوم سے ایک ہی بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ نیو کوہالہپل کے مشرق میں بشیر خان کے ہوٹل اور پٹرول پمپ والی جگہ قدیم دور میں "فردوس بر روئے زمیں " ہوئی ہو گی، اس کی ایک شہادت دریا کی اس غزرگاہ سے بھی ملتی ہے جو گوجر کوہالہ، کریر پل سے پانچ سو فٹ اوپر دومیل باسیاں اور سامنے متروک اور ویران ریسٹ ہائوس کے پاس ملتی ہے، اگر دریا کا یہ دہانہ اتنا زیادہ وسیع ہوا ہو گا تو یقینا یہ عہد قدیم کا بہت ہی خوبصورت مقام رہا ہو گا۔
کوہالہ کی تاریخی حیثیت
کوہالہ کے معانی، ماخذ اور اس کی اصلیت پر کوئی متفق ہو یا نہ ہو مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ گندھارا تہذیب کے مرکز سلطنت ٹیکسلا اپنے عہد کی وہ سپر پاور تھی جو وسطی ایشیا سے جزائر غرب الہند تک پھیلی ہوئی تھی، یہاں پرہی اڑھائی ہزار سال قبل ادھا یونیورسٹی بھی موجود تھی جو شمالی ہند میں علم و فضل کا سب سے بڑا مرکز تھی اور یہاں پر ہند کا قدیم آئین ساز چانکیہ کوٹلیہ، ماہر لسانیات پانینی جیسے استاد علم کی شمع روشن کئے ہوئے تھے اور ہندوستان بھر سے طلبا اپنی پیاس بجھانے یہاں آتے تھے، بدھا یونیورسٹی کا ایک کیمپس شاردہ آزاد کشمیر میں بھی تھا ، ان دونو کیمپس کو نیو کوہالہ پل کا راستہ آپس میں ملاتا تھا، طلبا اگر ٹیکسلا سے چلتے تو راستہ سری نگر کوہالہ روڈ والا ہی ہوتا تھا جبکہ گوجر کوہالہ اس وقت ایک نیلم پوائنٹ تھا جہاں قیام و طعام کی بہترین سہولیات دستیاب تھیں، طلبا یہاں پر تھکاوٹ اتارنے کے بعد چلتے اور ان کی اگلی منزل کوہ موشپوری کی چوٹی پر موجود ہنو مان جی کا مندر تھا جہاں وہ چند روز ماتھا ٹیکتے اور پھر نتھیا گلی اور کوہالہ بالا کے راستے ٹیکسلا پہنچتے، ٹیکسلا سے آنے والوں کا روٹ بھی یہی ہوتا تھا، بدھا یونیورسٹی کی ایک روایت یہ بھی تھی کہ جو طالب علم فارغ التحصیل ہو جاتا وہ استاد کے پائوں دودھ سے دھو کر وہ دودھ پی لیتا جس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس نے علم کا جام اپنے اندر انڈھیل لیا ہے، اڑھائی ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی کوہسار میں ایک محاورہ مقامی زبان میں بولا جاتا ہے کہ پیر توہی توہی پینا۔۔۔۔۔۔۔، در اصل یہ اسی روایت کی ایک نشانی ہے جو کیٹھوالی زبان سے موجودہ ڈھونڈی زبان میں منتقل ہوئی ہے۔
دریائے جہلم کیسے وجود میں آیا۔۔۔۔۔۔؟ اس علمی سوال کا جواب دوہزار پانچ میں اکسفورڈ پریس کے زیر اہتمام کمبرلی ہوسٹن کی کتاب دی ایشئین سائوتھ ایسین ورلڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ سٹوڈنٹس سٹڈی گائیڈ کے باب دوئم کے صفحہ چودہ پر ٹائم لائن کے عنوان سے دیکھی جا سکتی ہے، فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ چار لاکھ سال پہلے کشمیر کا یہ علاقہ ایک ارضی واقعہ کے نتیجہ میں ظہور میں آیا جہاں ایک بہت بڑی جھیل بن گئی، دولاکھ سال پہلے یہاں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا اس کے نتیجے میں موجودہ دریائے جہلم کی گزر کا پر ایک دراڑ بن گئی اور پانی نے پنجاب کی طرف بہنے کیلئے چلنا شروع کر دیا، دس ہزار سال پہلے پھر ایک زلزلہ آیا اور دریائے جہلم کے ارد گرد بڑے بڑے پہاڑ نمودار ہو گئے، اسی تھیوری پر قیاس کرتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی زمانے میں خوفناک زلزلہ آنے سے گوجر کوہالہ کا وجود مٹنے، اڑھائی ہزار سال قبل ہنوں کے ہاتھوں ٹیکسلا کی تباہی کے بعد کوہالہ کا یہ روٹ بھی متروک ہو گیا ہو گا یا اس کی جگی موجودہ کوہالہ آباد کیا گیا ہو گا، زلزلے آج بھی آتے ہیں اور دوہزار پانچ کے بڑے اور آخری زلزلہ نے تو کوہسار کا رنگ ہی بدل دیا ہے۔
کوہالہ کی تجارتی حیثیت
کوہالہ یو تو صدیوں سے ایک گزرگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، دیکھا جائے تو کشمیر کی پنجاب سے تجارت کوہالہ کی ہی مرہون منت رہی ہے، اسے حقیقی تجارتی حیثیت اٹھارہویں صدی کے وسط میں اس وقت ملی جب بنجاب سے گکھڑ اقتدار ختم ہوا اور مری اور سرکل بکوٹ سمیت تمام کوہسار دربار لاہور کی جھولی میں آ گرا، 1767 میں راولپنڈی جو محض گجنی پورا کے نام سے ایک قصبہ کے طور پر جانا جاتا تھا یا سید پور اور جھنڈا چیچی میں گکھڑ حکمرانوں کے چند محلات تھے یہاں پر سکھ حکمران ملکا سنگھ نے قبضہ کے بعد موجودہ شیخ رشید کی لال حویلی کے مقام پر ایک قلعہ بنایا، نرنکاری بازار میں چند دککانیں بنیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے راجہ بازار کی شکل اختیار کر لی، شمال میں پتن کے مقام پر کچھ دکانیں تو تھیں مگر ملکا سنگھ نے راجہ بازار کی تجارت کو کشمیر تک وسعت دینے کیلئے دیول اور موجودہ اہلڈ کوہالہ بازار کو ایک تجارتی منڈی میں تبدیل کرنے کی بنیاد ڈالی، پنجاب سے ہندو ساہو کاروں کو وہاں لا بسایا، مقامی لوگوں کو بیدخل کر کے ان کی اراضی ان کے نام کی گئی اور پھر مقامی لوگوں کو زراعت، تجارت وغیرہ سے بھی فارغ کر دیا گیا اور ان سے بیگار لی جانے لگی، راولپنڈی سے سامان تجارت پہلے دیول آتا تھا، یہاں سے ڈیمانڈ کے مطابق کھودر کے راستے ضلع باغ اور کوہالہ بھیجا جاتا تھا، اسی عہد میں کوہالہ میں تہہ در تہہ دکانیں اور کوٹھیاں بھی بنیں، یہ ہندو ساہو کار مقامی لوگوں سے اون پون غلہ خریدتے اور پھر انہیں ہی تین گنا قیمت پر واپس بیچتے، ان مجبور لوگوں کو بھری سود پر ان کی غمی خوشی پر قرضے دئے جاتے اور پھر انہیں گہنوں اور جائیداد سے محروم کر دیا جاتا، جس کے پاس لوٹانے کیلئے کچھ نہ ہوتا اس کا سر منڈوا کر سر پر اخروٹ رکھ کر اوپر مٹی سے بھری پرات گھمائی جاتی جس کی وجہ سے اس کے سر کی ہڈی ٹوٹ جاتی اور قرخ دار مر بھی جاتا، یہ خوفناک اور دردناک سلسلہ 1768میں کوہالہ بازار کے قیام سے 1848میں انگریزوں کی آمد تک جاری رہا۔
انگریزوں نے کشمیر کی تجارت میں تیزی لانے کیلئے کوہالہ میں 1871 کو معلق پل بنایا جو 1893 میں ایک سیلاب کے نتیجے مں بہہ گیا، دوسرا آہنی پل 1899میں تعمیر ہوا ۔ باسیاں کے شاہنواز خان کو ان دونوں پلوں کا ٹھیکہ ایوارڈ ہوا جبکہ بیروٹ کے پہلے انجینیئر مستری نور الٰہی نے ان دونوں پلوں کو نہ صرف ڈیزائن کیا بلکہ اس کی نگرانی میں انکی تعمیر مکمل ہوئی، پلوں کی وجہ سے سری نگر کا برائے راست تجارتی رابطی راولپنڈی سے ہو گیا اور کشمیری اجناس پنجاب پہنچنے لگیں، اس کے علوہ پبلک ٹرانسپورٹ کی داغ بیل بھی ڈالی گئی، 1910 میں ترمٹھیاں کے دیوان سنگھ کی چار بسیں راولپنڈی سرینگر روٹ پر دوڑنے لگیں، دیوان سنگھ کا بتیجھا کاکا سنگھ سرکل بکوٹ کا پہلا ڈرائیور تھا۔اس روٹ پر اسی بس کا 1920میں پہلا حادثہ برسالہ کہ مقام پر ہوا جس میں بیروٹ کے میاں میر جی شاہ سمیت 20افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔انگریزوں نے کوہالہ کو تجارتی مرکز کی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بنایا، یہاں پر ایک ریسٹ ہائوس، تار گھر، پوسٹ آفس، ایک شراب خانہ اور بعد میں منشیات ڈپو بھی بنایا، یہ بازار ایک میل لمبا تھا اور اس کی حیثیت باب کشمیر کی تھی، اس سے قبل 1855 کے لگ بھگ کوہالہ کو ہزارہ کی کمشنری سے جھری کس کی اراضی کے تبادلے میں مری کا حصہ بنایا گیا اور اس کی لیز ایک سو سال کیلئے پنجاب حکومت نے حاصل کر لی۔ 1947 تک کوہالہ کی 85 فیصد تجارت ہندو ساہوکاروں کے ہاتھ میں تھی اور مقامی مسلمان محض خریدار تھے۔
عہد حاضر میں اگرچہ کوہالہ اپنی مرکزی حیثیت کھو چکا ہے، سردار مہتاب کے عہد میں سڑکوں کے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے کوہالہ پر اہلیان سرکل بکوٹ کا انحصار نہ ہونے کے برابر ہے، آزاد کشمیر میں بھی منڈیاں قائم ہونے کے بعد یہاں سے اب کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہا، اب تو نیو کوہالہ برج کی تعمیر کے بعد گوجر کوہالہ کی تجارتی حیثیت دوبارہ بحال ہوئی ہے، یہ اولڈ کوہالہ اب محض ماضی کا ایک قصہ ہے جو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے۔
کوہالہ کی دفاعی حیثیت
پاکستان بننے کے بعد کوہالہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے، اگست 1947 میں کوہالہ پل بند کر دیا گیا تھا جو دسمبر میں دوبارہ کھولا گیا اور یہاں سے پنڈی مری اور مری ہلز ٹرانسپورٹ کے نئے روٹ کا اجرا ہوا۔ کشمیر میں جوں جوں حالات خراب ہوتے گئے توں توں کوہالہ پل اور بازار پر بھارتے حملوں میں بھی شدت آتی گئی، 2نومبر 1947 کو بھرتی بزدل فضائیہ نے کوہالہ پر پہلا حملہ کیا تا ہم اس سے صرف ایک دکان کو نقصان پہنچا، اسی ماہ میں بیس روز بعد بھارت نے کوہالہ پر دوسرا حملہ کیا، 21اگست 1949کو تیسرے بھارتی حملے میں متعدد افراد زخمی جبکہ ایک مقامی شخص سجاد جاں بحق ہو گیا، 1985 اور 1971 کی پاک بھرت جنگوں کے دوران بھی اس پل پر کئی ایک حملے کئے گئے مگر پاکستانی شاہینوں نے بھارتی بزدلوں کے کوہالہ کو تباہ کرنے کے خوابوں کو منتشر کر دیا۔
کوہالہ کی سیاسی حیثیت
روایت ہے کہ چمیاٹی کے عبدالرزاق عباسی نے کوہالہ پل پر پنڈت لال نہرو کو تھپڑ رسید کیا تھا، انیس سو پینتیس کے قانون ہند کی منظوری کے بعد 1936میں برصغیر کے پہلے انتخابات ہوئے، ان انتخابات کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر کوہالہ سرکل بکوٹ کا مرکز بن گیا، یہاں پر پنجاب اور ہزارہ کی سیاسی تاریخ کے پہلے عوامی جلسے مسلم لیگ، کانگریس، ہندو سکھ نیشنلسٹ پارٹی، ڈیمو کریٹک پارٹی اور احراروں کے جلسوں سے صاحبزادہ عبدالقیوم (بعد میں وزیر اعلیٰ سرحد بنے)، حاحبزادہ پیر حقیق اللہ بکوٹی، سردار حسن علی خان، عبدالرحمٰن خان (لورہ)، سرادر کالا خان، سردار نور خان، سردار عبدالرب نشتر اور دیگر نے خطاب کیا، 26جولائی1945 کو قائد اعظم کشمیر سے کوہالہ پل عبعر کر کے جب غربی کوہالہ میں داخل ہو ئے تو فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اتھی، آپ کو اہلیان کوہسار نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا، اور ان کی کار کے پیچھے احترام میں دیول تک گئی اور صلیال (داخلیات بیروٹ) سے انہیں رخصت کیا، 1946 میں پنڈت نہرو شیخ عبداللہ اور سرحد کے آخری کاگریسی وزیر اعلی ڈاکٹر خٓن کے ہمراہ کشمیر سے واپسی پر کوہالہ پل عبعر کرنے لگا، یو سی بکوٹ اے ایک بہادر شخص حلوائی ہوٹل والے نے ملنے کے بہانے کوہالہ پل کے درمیاں پنڈت نہرو کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ دے نارا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ طمانچہ رسید کرنے والا چمیاٹی کا عبدالرزاق عباسی تھا تاہم یہ طمانچہ بعد میں کشمیر کی قسمت میں آج تک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کوہالہ پل آزادی کے دوران کشمیریوں کیکئے ایک زندگی اور موت کا سوال بن گیا اور باسیاں کے مرد مجاہد سردار یعقوب خان نے اس کا محافظ بن کر کشمیریوں کے لئے زندگی کی علامت اور ان لے دلوں میں امر ہو گیا، 1952 میں جب سرکل بکوٹ میں پاکستانی تاریخ کے پہلے الیکشن ہوئے تو سرکل بکوٹ میں ماضی کے کانگریس نواز امیدوار سردار حسن علی خان کیخلاف اسی کوہالہ میں عوام نے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور اس کے مقابلہ میں حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی کو کامیاب کرایا، یہی وہ کوہالہ پل ہے جہاں صدر ایوب خان، وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو، صدر ضیاء الحق، وزیر نواز شریف اور دیگر سیاسی زعمائوں نے خطاب کیا، یہاں پر 1977 میں پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران سابق ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھٹو کو کوہالہ پل پر دختہ دار پر لٹکائوں گا، امر ہو گیا اور ان الفاظؓ کی عملی تعبیر بھی آگئی۔ آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد کے سابق پروفیسر صابر آفاقی کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنے سفر کشمیر کے دوران کوہالہ پل سے گزرتے ہوئے اپنی بانگ درا کی پہلی نظم ہمالہ کا آغاز کیسا تھا جو سری نگر پہنچ کر مکمل کی تھی۔ یہ پہلے اشعار اس طرح ہیں۔

اے ہمالہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
کاش......... آج کا کوہالہ بھی مقامی لوگوں کے دلوں میں بھی اسی طرح زندہ ہوتا مگر عہد غلامی کی اس علامت کو مٹنا ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ سو وہ مٹ گئی، اب نیا سویرا ہے اور نئی نسل اپنی منزل آسمانوں میں ڈھونڈ رہی ہے کوہالہ کی پستیوں میں نہیں۔
<Next>
<Previous>
 سرکل بکوٹ کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ یونین کونسل
بیروٹ
یہاں پر کسی قسم کی تعلیمی سہولت نہ ہونے کے باوجود 25 پی ایچ ڈی اور لا تعداد ایم فل اور ڈاکٹر ہیں
مزید تفصیلات کیلئے َ>کلک< کیجئے
 
تحقیق و تحریر: عبیداللہ علوی
مورخ، انتھروپولوجسٹ ، بلاگر اور صحافی
سرکل بکوٹ کا مرکزی مقام بیروٹ
قدیم نام برمنگ تھا
************************

سابق یونین کونسل بیروٹ کا قدیم نام برمنگ ہے جسے آپ سرسبزو شاداب علاقہ بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا متضاد کانڈھاں ہے جس کے معانی دشوار گزار علاقہ ہے، یو سی بیروٹ برمنگ اور کانڈھاں کے دونوں علاقوں پر مشتمل ہے، کہا جاتا ہے کہ سترھویں صدی کے وسط میں کوہسار بھر کو جان لیوا قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، اس زمانے میں ایک شہزادی یہاں سے گزری، اس کا گھوڑا چوریاں(کہو شرقی)میں چارہ نہ ہونے کی وجہ سے مر گیا، وہ بھی بھوک سے نڈھال تھی ، اس نے بیس طلائی روٹیاں یہاں پر آباد گھرانوں کو دینے کی پیشکش بھی کی مگر اسے کھانا نہ مل سکا اور اس نے تڑپ کر جان دیدی، یہ بھی ایک روایت ہے کہ چوریاں میں اسلامی مدرسہ کے اوپر نو گزی قبر بھی اسی شہزادی کی ہے۔ یہ واقعہ اس قدر مشہور ہو گیا کہ برمنگ کا نام تبدیل ہو کر بیروٹ ہو گیا جس کا مطلب ہے بیس روٹیاں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
  بیروٹ1982تک بکوٹ کا حصہ تھی، 1982میں بیروٹ اور بیروٹ خورد کی مزید دو یونین کونسلیں بنائی گئیں، قیام پاکستان کے بعد اس یونین کونسل نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی اور تعلیم کے زینے بھی طے کئے۔ موجودہ حکومت نے یونین کونسل بیروٹ کو تحلیل کرکے اس کی مزید 6ویلج کونسلیں بنا دی ہیں، جن میں ایک سینٹرل بیروٹ ہے، یہ ویلج کونسل سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے، سابق ڈی جی نیب بریگیڈیئر (ر)مصدق عباسی، روزنامہ آئینہ جہاں کے چیف ایڈیٹر اشتیاق احمد عباسی، حاضر سروس جرنیل مقصود عباسی، ریٹائرڈ کرنل شبراز عباسی،امتیاز سپر مارکیٹ کے چیئرمین امتیاز حسین عباسی اور بھارت میں دو بار گورنر بننے والے ٹھیکیدار امین خان کے صاحبزادے محمد شفیع قریشی، استاد استاذ مولانا محمد اسماعیل علوی، سید فضل حسین شاہ اور سرکل بکوٹ کے پہلے شاعر مولانا محمد یعقوب علوی جیسے نامور لوگوں کا تعلق بھی اسی یوسی سے ہے، عباسی برادری کے ذیلی قبیلے حاجیال، مرتال ، کاملال، چنگسیال، فقیرال ،بنکال ، میرال اورمہرال کے علاوہ علوی اعوان ، اعوان، آوان، قریشی، مشہدی سادات اور کیٹھوال راجپوت بھی سینٹرل بیروٹ میں آباد ہیں۔ ڈیڑھ سو سالہ قدیم پرائمری سکول کے علاوہ سب سے زیادہ پرائیویٹ اورمسجد سکول بھی یہاں پر ہی ہیں، یہاں کے زیادہ تر لوگ بزنس مین ہیں بلکہ مسعود عباسی پولٹری کاروبار میں ایک آئیکون کی حیثیت رکھتے ہیں، موجودہ دور کی اہم شخصیات میں سابق ناظم آفاق عباسی، راجہ حیدر زمان، افراز عباسی، فہیم احمد علوی ، سید ممتاز حسین شاہ ،مولانا زاہد عباسی، ایثار راجپوت، ممتاز دانشور اور 12 کتابوں کے مصنف محبت حسین اعوان، مانسہرہ ہجرت کرنے والے شاعر اور سابق ٹیچر اقبال حسین شاہ مخلص بیروٹوی، تنظیم اسلامی شمالی پنجاب کے امیر خالد عباسی اور ان کے والد آفتاب عباسی بھی اسی ویلج کونسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ماضی کے تین یونین چیئرمین بابو عرفان خان، غلام عرفان خان اور حاجی اعظم خان کا تعلق بھی اسی یونین کونسل سے تھا۔ یہاں پر کہوٹی بازار میں دو مدارس اور ایک پبلک لائبریری بھی موجود ہے جبکہ مساجد کی سب سے زیادہ تعداد بھی یہاں پر ہے۔حضرت پیر بکوٹی نے 1880-1908یک یہاں ہی قیام کیا، علوی اعوان برادری میں شادی بھی کی اور کاملال برادری نے سترہ کنال اراضی بھی ان کے نام ہبہ کی، 25 میں سے 18 پی ایچ ڈی کا تعلق بھی سینٹرل بیروٹ سے ہے، اس کی حدود کنیر کس سے لیکر شاہراہ کشمیر ، شمال میں ہوتریٹری چوک اور چوکی اور جنوب میں میرا اور فرش تک ہیں۔ اس میں صرف ایک لنک روڈ سنگرالاں سے لمیاں ٹراں جاتی ہے، چلہوٹہ سے سینٹرل بیروٹ کے لئے ایک واٹر پائپ لائن ہے،الیکشن کمیشن کے تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق اس ویلیج کونسل کا چارج نمبر 03،سرکل نمبر 09،بلاک نمبرز 022030904 ہے جبکہ اس کی آبادی چار ہزار تین سو چوالیس اور جنرل کونسلروں کی تعداد سات ہے۔ اس کے موجودہ وی سی ناظم ندیم عباسی ہیں جو جو سی کے سابق چیئرمین سردار غلام عرفان خان کے پوتے ہیں۔
سابق یونین کونسل کی دوسری بڑی ویلج کونسل کہوشرقی ہے جو میرا سے لیکر قلعہ گرانڈ اور ملکوٹ پل اور کنیر کس سے لیکر سراں ہمبوتر تک ہے۔ یہاں کا اکثریتی عباسی قبیلہ کی ذیلی برادریوں میں خانال، نکودرال، بھگیال ہیں جبکہ دیکر قبائل میں علوی اعوان، اعوان، قریشی، دھنیال، قریشی اور بخاری سادات ہیں۔ ترمٹھیاں میں اہل تشیع کے بھی چند گھرانے موجود ہیں۔ مشرف عہد کے پہلے ناطم طاہر فراز عباسی، ان کے چچا اور پہلے اکانٹنٹ جنرل آف پاکستان حاجی سرفراز خان ، دیو بند کے پہلے عالم دین مولانا محمد دفتر علوی (متوفی 1908) پہلے فوجی عہدیدار کمانڈر عزیز خان، ضلع کونسل کے پہلے رکن حبیب الرحمن عباسی، نمبردار ایسب خان، سرکل بکوٹ کے پہلے سفارتکار افتخار عباسی، پہلے صحافی کبریا عباسی، گرلز پرائمری سکول بیروٹ کی پہلی اول مدرس عجائب بی بی علوی، گرلز ہائیرسیکنڈری سکول کی پہلی پرنسپل فرخ نشتر اور سپریم کورٹ کے پہلے وکیل عبدالقیوم قریشی اسی ویلج کونسل سے تعلق رکھتے تھے، دیگر نامور لوگ جو اس ویلج کونسل میں موجود ہیں ان میں سعید عباسی، طاہر امین عباسی، محترمہ آپا شمیم صاحبہ، محترمہ شاہدہ اسلام صاحبہ، صحافیوں میں محمد عبید اللہ علوی ، فدا عباسی ،سجاد عباسی ،ماہر تعلیم میں امتیاز عباسی، محمد سہراب، منظور احمد، ڈاکٹر الیاس شاہ، فاروق عباسی اور دیگر شامل ہیں ۔ اس کی آبادی لگ بھگ ساڑھے 7 ہزار ہے، یہاں پر ایک بنک، زنانہ اور مردانہ ہائیر سیکنڈری سکولز، ٹیلیفون ایکسچینچ بھی ہے، سرکل بکوٹ کی ڈھونڈ عباسی برادری کے جد امجد لہر خان اسی ویلج کونسل میں سمبلانیاں کے سکول کے پاس ابدی نیند سورہے ہیں۔ یہاں پر تین قدیم ترین قبرستان بھی ہیں، زیادتر لوگ ملازم پیشہ ہیں اور دوسرے نمبر پر کاروباری افراد آتے ہیں۔ اسی ویلج کونسل میں طاہر فراز عباسی (سابق ناظم) نے چوریاں سندھواری ہل لنک روڈ ، چوریاں ہمبوتر لنک روڈ جبکہ آپا شمیم اختر صاحبہ نے ترمٹھیاں بہک روڈ اور اس سے قبل کہو ریالہ لنک روڈ (نامکمل) بنوائی تھی، اہلیان دیول نے ترمٹھیاں سے ٹاہلی نکر تک بھی ایک لنک روڈ بنوائی ہے ، یہاں پر ایک مسجد مکتب تھا مگر اہلیاں دیہہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ ٹہنڈی سینٹرل بیروٹ منتقل ہوگیا ہے اسی میں دو پرائیویٹ سکولز اور دو مدارس بھی ہیں، یہاں کے لوگوں آبی ضروریات سے آنے والی گریٹر پائپ لائن پوری کرتی ہے جس کے کنکشنز لوئر دیول کو بھی دیئے گئے ہیں۔
بیروٹ کی تیسری اہم ویلج کونسل جلیال بانڈی ہے، یہاں کے زیادہ تر لوگ ٹرانسپورٹ، پولٹری فارمنگ اور ذاتی کاروبار کرتے ہیں، ماضی میں یہاں کی اہم شخصیات میں پہلے استاد الاستاد سید معصوم علی شاہ، راجہ نذر خان (پہلے ٹرانسپورٹر) محمد یونس خان، حاجی مصطفی خان، عبداللہ خان، مولوی اشرف شاہ، جنرل کونسلر مسعود عباسی، جنرل کونسلر نجیب عباسی، سہراب خان اور عباس خان ہیں۔ جلیال بانڈی ویلج کونسل میں وہ تاریخی مقام مانواں نی ہل بھی ہے جہاں 1451میں کیٹھوالوں کی ڈھونڈ عباسیوں کے ہاتھوں پسپائی کے بعد ان کی خواتین کو نہایت عزت و احترام سے ان کی وفات تک رکھا گیا تھا، جب وہ عمر رسیدہ ہوگئیں تو اس جگہ کا نام ہی مانواں نی ہل پڑ گیا تھا۔ یہاں پر دوسر ااہم اور تاریخی واقعہ اس وقت ہوا تھا جبکہ 1948میں ڈوگرہ فوج مجاہد اول سردار عبدالقیوم کی گرفتاری کے لئے انہیں تلاش کررہی تھی اور بانڈی کے کالا خان نے رات کی تاریکی میں مرحوم سردار قیوم کو تیر کر دریائے جہلم عبور کر کے ایک ہفتہ تک اپنے گھر میں چھپا رکھا تھا۔ اسی ویلج کونسل سے شاہراہ کشمیر بھی گزرتی ہے۔ یہاں پر ایک لنک روڈ ہے جس کا نون لیگ کے عہد میں سابق ایم پی اے سردار شمعون نے افتتاح کیا تھا، اس ویلج کونسل میں گورنر سردار مہتاب خان کا ننھیال بھی ہے، یہاں پر ہی جلیاں میں بریلوی اور دیوبندی مسلک کی دو مساجد اور مدارس بھی ہیں جہاں محافل ہوتی رہتی ہیں۔
بیروٹ کی چوتھی اور شمالی ویلج کونسل باسیاں ہے جو 16صدی کے ایک سردارپاس خان کے نام سے موسوم ہے ، اس سے پہلے یہ ویلیج کونسل دومیل کہلاتی تھی،اس کی حدود ہوتریڑی چوک اور چوکی سے لیکر کنیر پل سے آگے اور دریائے جہلم سے کنیر کس تک ہیں،وی سی  باسیاں کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ 1947سے لیکر 1950تک یہ تحریک آزادی کشمیر کا آپریشنل بیس کیمپ رہا ہے۔ سردار قیوم خان، چوہدری غلام عباس، سردار ابراہیم خان، سکندر حیات خان جیسی کشمیری قیادت بھی باسیاں کی مہمان رہی ہیں، قدیم مورخین کے مطابق سرکل بکوٹ کی قدیم ترین آبادی بھی باسیاں ہی ہے۔ آزادی سے قبل یہاں پر ہندو کھتریوں کے کچھ خاندان بھی رہتے تھے جن کا موجودہ مرکزی جامع مسجد کے ساتھ مندر اور مولاچھ کے نیچے دریائے جہلم کے کنارے ایک مرگھٹ بھی تھا۔ یہاں کا اکثریتی قبیلہ موجوال تھا جسے 17ویں صدی میں ایک تنازعہ کے نتیجے میں بکوٹ ہجرت کرنا پڑی تھی، یہاں کے زیادہ تر لوگ کاروباری ہیں، یہاں پر زلزلہ سے تباہ شدہ ایک مڈل سکول ، معصومہ میں ایک خیمہ سکول سمیت چند پرائمری سکول ہیں۔ اکثریتی عباسی قبیلہ کے علاوہ یہاں جدون، اعوان، قریشی بھی رہتے ہیں۔ مولاچھ کا سنگھم نیا کوہالہ پل اور کنیر جیسے تاریخی مقامات بھی اس ویلج کونسل میں ہیں ماضی کی اہم شخصیات میں عجب خان، سردار یعقوب خان، سردار محمود خان، حکیم ظفرالحق علوی چشتی، منصور الحق قریشی، ماسٹر خطیب الرحمان جدون اور ڈاکٹر اجمل شامل ہیں جبکہ عہد حاضر میں صحافی طالب عباسی، سابق جج شعیب عباسی وکلامیں سجاد عباسی، زرین عباسی، صوبیدار عبدالمجید عباسی، نورچشم عباسی، شاعر اور عالم دین مولاناسعید الرحمن جدون بے نوا شامل ہیں۔ اس ویلج کونسل کا آفس ہوتریڑی چوک میں  ہے۔موجودہ لینڈ سلائیڈنگ باسیاں کی ڈھوک گلندکوٹ میں ہوئی ہے جس میں آوان اور قریشی برادری کے35گھر تباہ ہوگئے ہیں۔ جبکہ ایک اور لینڈ سلائیڈ بھی لوئر باسیاں میں ہوئی ہے، واپڈا یہاں پر کوہالہ ہائیڈل پرہجکٹ کے نام سے ایک ڈیم بھی بنانا چاہتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس کا آخری علاقہ دومیل ہزاروں سال سے کشمیریوں کی گزرگاہ بھی رہا ہے، یہاں سے بدھ طلبا حصول تعلیم کیلئے براستہ ہوتریڑی، موشپوری ٹیکسلا بھی جایا کرتے تھے۔
بیروٹ کی پانچویں ویلج کونسل بیروٹ خورد ہے جس کی حدود بکوٹ کس سے موہڑہ کس اور کنیر کس سے موشپوری تک ہیں۔ یہاں ڈھونڈ عباسیوں کی ذیلی برادریوں نکودرال اور موجوال کے علاوہ سادات، چوہدری، اعوان بھی بستے ہیں، زیادہ تر لوگ بزنس مین اور ٹرانسپورٹر ہیں اور کراچی، راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم ہیں اور بیرون ملک بھی ملازمت کرتے ہیں۔ بیروٹ خورد کے اہم علاقوں میں بھن، چلہوٹہ، نڑی ہوتر، ہوترول، کھرینڈی، سانگریڑی، نکر موجوال، ہوتریڑی، ریالی اور موشپوری ہیں۔ ماضی میں یہاں سے برکات خان، نواز عباسی یونین کونسل کے جنرل کونسلر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ یہاں سے سوار گلی بوئی روڈ، بھن بکوٹ روڈ، کھن خورد روڈ اور موہڑہ ہوتری چوک لنک روڈ گزرتی ہیں ۔ یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر ذاتی کاروبار ہے جن میں اخبار فروشوں کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی شاہد عباسی، اعجاز عباسی، کلیم عباسی، چوہدری اسحاق بھی شامل ہیں۔ نکر موجوال کے فاروق ریالی، ہوتریٹری کے اقبال عباسی اس وقت اہم سیاسی فعال شخصیات ہیں۔ ارشد عباسی ایڈوکیٹ کا تعلق بھی نکر موجوال سے ہے جو سپریم کورٹ کے نامور وکلامیں شامل ہیں۔ نواز عباسی کراچی بار کے دوبار صدر بنے ہیں اور اہم وکیل ہیں، سی کاز یونیورسٹی پشاور کے قدآور چیف ایگزیکٹو کلیم عباسی کا تعلق بھی نکر موجوال سے ہے، نکر موجوال کا نام 16صدی کے سردار موج خان کے نام  سے موسوم ہے جو کنی سے موشپوری تک کی جاگیر کے مالک تھے، موشپوری بھی دراصل موج خان کے نام پر موجپوری ہے جو بدل کر موشپوری یا موشک پوری ہوگیا ہے۔
بیروٹ کی شمال میں ویلج کونسل کہو غربی ہے کی حدود موہڑہ کس سے ریالہ کس اور کنیر کس سے رامکوٹ اور ڈونگا گلی تک ہیں۔ یہاں پر اکثریتی ڈھونڈ عباسی قبیلہ کی ذیلی شاخوں نکودرال اور قطبال کے علاوہ چوہدری اور قریشی برادری بھی رہتی ہے۔ بیروٹ کے جنگل کا بڑا حصہ اور ترمٹھیاں کا واٹر ریسورس بھی یہاں ہی ہے، یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش راولپنڈی اور کراچی میں ذاتی کاروبار ہے۔ یہاں پر ایک مڈل سکول اور 5پرائمری سکول ہیں، اس ویلج کونسل میں موہڑہ کے مقام پر ایک سینٹی ٹوریم ہے جہاں سے پورا علاقہ استفادہ کررہا ہے۔ سحر پبلک سکول کے نام سے اکلوتا پرائیویٹ سکول اور کالج بھی ہے جہاں بی اے تک تعلیم دی جارہی ہے، یہاں کی اہم شخصیات میں کراچی کے معروف بزنس مین امتیاز عباسی ، سابق چیئرمین قاضی سجاول خان، پروفیسر شرافت علی، فضل رحیم عباسی، صحافیوں میں شاکر عباسی، شہزاد عباسی اور روزنامہ آئینہ جہاں کے چیف ایڈیٹر اشتیاق عباسی شامل ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹی ویلج کونسل ہے۔ اس میں گزشتہ 5 صدیوں سے 1975تک علاقے بھر کی ضروریات پوری کرنے کے لئے چندراں نی ڈھیری پر پن چکیاں بھی موجود رہی ہیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اسی ویلج کونسل میں گندھک ، کوئلے اور ہیرے کے ذخائر بھی ہیں۔ ایک لفٹ کے ذریعہ کہو شرقی سے منسلک ہے، آخر میں دعا ہے کہ یہ چمن اسی طرح شاد آباد اور شہرت کی بلندیوں پر چاند بن کر سدا چمکتا اور دمکتا رہے۔
 ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
روزنامہ آئینہ جہاں اسلام اباد، 11اکتوبر، 2015






Tuesday 27 October 2015

دیول شریف
شمالی تحصیل مری کی مثالی یونین کونسل

تحقیق و تحریر: عبیداللہ علوی


مورخ، انتھروپولوجسٹ، مترجم قرآن حکیم اور بلاگر

فون:  

03315446020

******************************
یہ آرٹیکل اس ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ فرمائیں
اور یہاں کلک کریں


******************************
ضروری نوٹ
میرے پیارے دوست، شاگرد اور صحافی اشتیاق عباسی نے کچھ عرصہ قبل میری کتاب تاریخ و تمدن کوہسار کا ایک خاکہ دیکھا تھا اور کافی عرصہ سے اصرار کر رہے تھے کہ میں اسے تفصیل سے قلمبند کروں مگر کار جہاں کے دراز ہونے کی وجہ سے خواہش کے باوجود یہ پروجیکٹ تفصیلی طور پر مکمل نہ ہو سکا، اب جبکہ اشتیاق عباسی ایک آزاد صحافتی ادارے روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد کے چیف ایڈیٹر ہیں انہوں نے اب کوہسار کی ممکنہ حد تک تمام سائیسی تحقیقی  اصولوں کے مطابق تاریخ لکھنے اور اپنے اخبار میں شائع کرنے کی دعوت دی ہے، میں اس کے لئے بائیو لوجی، جینیٹکس، انتھروپولوجی کے علاوہ عربوں اور جدید دنیا کے علم الانساب (اتھنالوجی)، زوالوجی اور علم التحقیق یا اپسٹیمالوجی (ایم فل میں پڑھائے جانے والی سائنس) سے بھی استفادہ کر رہا ہوں، حوالہ جات کیلئے انگریز مصنفین کی کتابوں اور مقالات (ریسرچ پیپرز) کی بھی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے اس کیلئے میں انٹرنیٹ پر دستیاب لائیبریریوں کو بھی کھنگال رہا ہوں۔ میری یہ کاوش حرف آخر نہیں، میرے بعد آنے والے مجھ سے زیادہ قابل، ذہین اور علم کی دولت سے مالا مال ہوں گے، جہاں مجھ سے میری کم علمی کی وجہ سے غیر ارادی طور پر خطا ہوئی ہے وہ اسے درست کریں گے، مجھے آپ کے تعاون کی بھی ضرورت ہے، شائع شدہ میرے کسی آرٹیکل کے بارے میں آپ کے پاس مجھ سے بہتر معلومات ہیں تو خدا را وہ مجھ سے بھی شیئر کریں، ہو سکتا ہے کہ تاریخ کی بعض کڑیاں مزید سلجھ سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد عبیداللہ علوی
******************************
****************************** 
میں اپنا یہ بلاگ اوسیا ہائی سکول کے مایہ ناز معلم اور ہیڈ ماسٹر محترم ملک عبدالحمید کے نام انتساب کرتا ہوں جنہوں نے اپنی زندگی کے 24 برس اپنے طلبا کی نذر کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میم عین علوی، بیروٹ
******************************
اگر شمالی پنجاب کا ذکر ہو اور اس کے فطری اجلے پن اور حسن کا تذکرہ نہ ہو تو یہ خود حسن فطرت سے لبریز اس علاقے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی، یہ ذکر ہے سمالی پنجاب کی آخری یونین کونسل دیول کا، جس کے بہترین دماغ پاک فوج اور سول حکومت کی پالیسی سازی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور آج بھی اپنی قومی خدمات کے سلسلے میں سر فہرست ہیں۔ جنرل انیس عباسی، خاقان عباسی، شاہد خاقان عباسی اور پیر صاحب دیول شریف پیر عبدالمجید احمد علوی دیول کا وہ مستند حوالہ ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا بلکہ ان ہی کی وجہ سے اوسیا کی یہ ڈھوک دیول آج شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

دیول۔۔۔۔۔۔۔ ماضی بعید کے کسی دور میں بھی کسی بھی حوالے سے کوئی تاریخی، تمدنی اور علمی نشانی نہیں ملتی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیول نمب رومال کی اس عہد میں ایک رکھ یا شاملات تھی اور اس کے سارے لوگ دروازہ ملکوٹ، نمب اور پلک یونین کونسل سے تعلق رکھتے ہیں،انیسویں صدی کے آغاز تک دیول اور نمب کا مرکزی سیاسی مقام اوسیا تھا جہاں گزشتہ آٹھ سو سال سے گکھڑ دور اقتدار میں بلدیاتی نظام کا نیوکلس بھی تھا اور یہاں پر شمالی مری کے لوگوں کے مقدر کے فیصلے ہوتے تھے،اوسیاہ کا وہ دیوان (موجودہ دور کی یونین کونسل کا دفتر) جو گکھڑ اقتدار کے بعد مقامی کھتریوں کی لوٹ مار کا گودام، انیسویں صدی کے وسط کے بعد غیر ملکی سیاحوں کا ریسٹ ہائوس اور اٹھارہ سو ستر کے عشرہ سے کوسار کی قدیم ترین علمی درسگاہ کا روپ اختیار کئے ہوئے ہے، اسی سکول نے ماضی کے اوسیاہ کی جگہ اس کی ڈھوک دیول کو اس کی علمی دماغوں کی بدولت اتنا سربلند کیا کہ اب ہر حوالے سے  اوسیا نہیں بلکہ دیول کی ہی بلے بلے ہے۔
اوسیاہ سے متعلق مختلف نظریات
اوسیاہ قبل از اسلام کے ایک کیٹھوال سردار عیس یا عبس خان (اس طرح کے نام جناب صبیر ستی ایڈووکیٹ کی کتابوں ستی سماج اور تاریخ ستیاں میں موجود کیٹھوالوں کے شجروں میں بھی ملتے ہیں) کے نام پر دسویں صدی میں آباد ہوا تھا، وہ بھی باسیاں کے باس خان نامی سردار باس خان کی طرح اپنے وقت کا ایک مہمان نواز اور شیو کا وہ پجاری یا عقیدت مند تھا جو دیول کے مندر میں کشمیر سے ٹیکسلا آنے اور جانے والوں (خواہ وہ یاتری ہوتے ئا طالبعلم) اپنے مہا مہنت شری دیول کرشن کی قربت چاہتا تھا، ڈاکٹر لارنس اے باب اپنی کتاب ابسنٹ لارڈ، ایکسکیٹس اینڈ کنگز ان اے جین ریشوایل کلچر کے صفحہ دو سو گیارہ کے نوٹس  میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
۔۔۔۔۔ راجستھان میں ایک گائوں ملپور پٹن جسے اوسیا بھی کہا جاتا تھا اس میں ڈھونڈی مل نامی ایک سادھو ریتا تھا، اس نے اپنے ایک چیلے کو خیرات وغیرہ لانے کیلئے اس علاقے میں بھیجا مگر وہاں کے لوگوں نے انہیں کچھ نہ دیا جس پر اس سادھو نے اس گائوں کو ویران کر دیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔ اوسیا ایک دیوی کا نام بھی ہے جہاں نوراتری (نو راتیں) سال میں دوبار ماہ چیت اور اسوج میں بسر کرنی پڑتی ہیں اور یہاں پر اس دیوی پر نذرانے نچھاور کرتے ہیں، یہاں پر ایک پجارن ساسیا ماتا رہتی تھی جس نے جین مت قبول کیا تھا اور اس نے یہاں مندر بنایا،
۔۔۔۔۔۔۔۔ اوسیا نامی گائوں میں جین مت کے بانی مہاویر کا مندر بھی موجود ہے۔
 ایک اور کتاب راج راپسودیس، ٹویزم، ہریٹیج اینڈ دی سیڈکشن آف ہسٹری کا مرتب ڈاکٹر اہم ویسگرائو صفحہ ایک سو اڑسٹھ پر لکھتا ہے کہ راجستھان میں اوسیا دیوی کی ماں کا نام اوسیا ماتا یا اوسیا کا بھیرو تھا۔
وی اے سانگیو اپنی کتاب جین کمیونیٹی، اے سوشل سروے کے صفحہ تریاسی پر لکھتا ہے کہ بھارت میں مرواڑ کے علاقے میں ایک قصبہ اوساوالا کا ہے جس کی اصل اوسیا ہی ہے۔
اگر ان روایات کو پیش نظر رکھ کر تحصیل مری کے اس علاقہ کا قدیم تاریخی تناظر میں مذہبی تجزئیہ کیا جائے تو (راقم الحروف کی ذاتی رائے کے مطابق) یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندو مذہب سے قبل اس خطہ کوہسار میں قدیم جین مت رائج تھا، سنسکرت میں جین کا مطلب نفس کشی یا نفس پر فتح ہے اور اس کے ماننے والے عدم تشدد، عدم مطلق العنانیت وغیرہ پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس طرح یہ حقیقت بھی تقریباً طے ہو جاتی ہے کہ اوسیا کا یہ علاقہ جین مت کا گڑھ تھا اور موجودہ ہائر سیکنڈری سکول یا پڑائو کا مقام پر وہ مندر قائم تھا جہاں اوسیا دیوی کی مورت رکھی ہوئی تھی اور اس کے پجاری وہاں پوجا کرتے تھے، تین ہزار سال قبل جب فارس کے کیٹھوالوں اور وسط ایشیا سے آریائی  راجپوتوں نے یہاں قدم رکھا تو جین مت کی جگہ ہندو مت کے شیو دیوتا کا مذہب رائج کیا گیا، انہوں نے اوسیا کی جگہ دیول مندر کی مناسبت سے اس علاقے کا نام ہی بدل کر دیول رکھ دیا اور اوسیا محض اس کی ایک ڈھوک بن گئی۔ 

 دیول کہتے کس کو ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 
اس کا جواب جاننے کیلئے انڈولوجی (قدیم ہند کو سمجھنے کا علم) سے رجوع کرنا پڑے گا، قدیم ہند کے متنازعہ قانون ساز منو جی کی منو سمرتی کہتی ہے کہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں ھندو شیو دیوتا کی مورتی کے آگے اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں، سنسکرت ڈکشنری میں اسے سمال ٹمپل کے معانی دئے گئے ہیں، معروف ماہر علم البشریات (انتھروپولوجی) عزیز احمد اپنی کتاب پاکستان سٹوپاز، اکونومیا اینڈ میں دیول کو بدھ مذہب کے سٹوپا کا نام دیتے ہیں، یہ افغان لفظ بھی ہے جو فن مصوری اور علامت سازی کیلئے استعمال ہوتا ہے،قدیم ہندوستان اور جدید بھارت میں دیوتائوں اور لوگوں کے نام بھی ہوتے ہیں جن میں ایک دیوتا دیول کرشن بھی ہے، قدیم گجرات کے حکمران رائے کارن کی اس بیٹی کا نام بھی دیول رانی تھا جس کے افیئر ہندوستانی حکمران علائوالدین خلجی کے بیٹے خضر خان کے ساتھ تھے، وارث شاہ کی طرح امیر خسرو نے  بھی اپنی مثنوی میں ان شاہی ہیر رانجھا کا ذکر مزے لے لیکر کیا ہے۔ای جے بریل کے فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی جلد چہارم میں اس معاشقے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ اس شاہی جوڑے نے چودہ اپریل تیرہ سو بیس کی  شب شادی بھی کر لی تھی،جرنل آف  پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی ، دوہزار پانچ کے مطابق دیول ایک ہندو دیوی کا نام بھی ہے جبکہ بینی گپتا اپنی کتاب میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنز میں ضیاء الدین برنی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اسی دیول رانی کی بیکا نیر میں دیول دیوی کے طور پر پوجا بھی کی جاتی ہے، رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری کی مصنفہ سوزی جے تھاروکی جے للیتا کے مطابق دیول پدما کے نام سے ایک بنگلہ دیشی نژاد بھارتی ناول نگار زلیخا سانیال نے انیس سو چونسٹھ میں ایک ناول لکھا تھا جس کے معنی دیوار کے پھول کے ہیں، معروف اسلامی مورخ طبری کے مطابق دیول کو عربی میں دیبل کہتے ہیں اور اس کے لئے طبری نے موجودہ بن قاسم پورٹ کراچی کے قریب دیبل کا حوالہ دیا ہے اور اسی کو ہسٹاریکل سوسائیٹی اسلام آباد کی شائع شدہ کتاب پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل میں بھی معتبر مانا گیا ہے۔ جدید بھارت میں ممبئی کی فلمی صنعت کے راجکمار اور راجکماریاں ابھے دیول، دھرم سنگھ دیول (دھرمندر) بوبی دیول اور سنی دیول سے کون آشنا نہیں، بالخصوص نئی نسل کے وہ بانکے جو زندہ ہی بھارتی فلمیں دیکھ کر رہتے ہیں۔

دیول شمالی پنجاب کا پنجاب ہزارہ کے بائونڈری آڑی پر واقع ایک ماڈل ویلیج ہی نہیں اس نام سے پاکستان۔ افغانستان اور بھارت میں کثرت سے گائوں  بھی ہیں،  دیگر دیول نامی گائوں میں شاردہ آزاد کشمیر، ضلع پزاور میں دیول گڑھی،  دریائے سندھ پر وہ مقام جہاں بیٹی سے شادی کرنے والے پرتھوی راج کو اس کے بیٹے  بھیما نے گیارہ سو پچاسی میں قتل کیا تھا دیول کہلاتا ہے،  افغانستان میں روس کے خلاف جس زیرو پوائنٹ سے جہاد کا آغاز کیا گیا تھا وہ بھی سرخ دیول کے نام سے جانا جاتا ہے،بھارت میں دیول دیپ کے نام سے ایک مندر بھی ہے جہاں راجہ چندر ورما نے آخری سانس لی تھی ، ماہرین انڈولوجی کے مطابق دیول دیپ کے معنی اس خدا کے ہیں جو اپنا خاندان بھی رکھتا ہے تاہم یہ معنی مشکوک ہیں کیونکہ دیپ کا معنی سنسکرت میں روشنی کا دیا یا مشعل ہوتا ہے، انگریز سیاح آرتھر نیل نے اپنی کتاب دی لیجیسی آف کشمیر، لداخ اینڈ سکردو میں پہلی بار اٹھارہ سو ستر  میں دنیا کو مری کے اس سرحدی قصبے سے روشناس کرایا تھا تا ہم اٹھارہ سو چتھتیس میں جب ہری سنگھ نلوہ کی فوج نے جد دیول پر حملہ کیا اور یہاں لوٹ مار کی تو یہاں کے لوگوں نے پیر عبدالمجید احمد علوی کے دادا مولانا پیر محمد ہاشم کی قیادت میں ان کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا، سی موقع پر پھگواڑی کے دارا نامی مقام پر ایک سکھ جنرل کو جہنم واصل کیا گیا تھا، دیول کے شہداء کی قربانی کا یہ اثر ہوا کہ اٹھارہ سو ستاون میں مری شہر پر قبضہ اور اس کے بارے میں پورا نیٹ ورک قائم کرنے کا منصوبہ اسی دیول کی ڈھوک سیداں میں بنایا گیا، اس کے منصوبہ ساز دو سید برادران سید امیر علی اور سید اکرم علی  تھے اور اسے سردار شیر باز خان نے بروئے کار لانا تھا مگر ایک مقامی خاتون نے اپنے بھائی کی جان بچانے کیلئے یہ منصوبہ دشمن تک پہنچا دیا جس کی ناکامی کے بعد تحصیل مری کا کوئی گائوں ایسا نہیں تھا جہاں پر مقامی آبادی کا قتل عام نہ کیا گیا ہو اور ایک ماہ تک وہاں کے سر فروشوں کے بذر آتش ہونے والے گھروں  سے دھواں نہ اٹھتا رہا ہو، آخری جنگ ازادی کے ہیرو باز خان اور ان کے بیٹوں کو توپ زد کیا گیا اور سید برادران کی زندہ کھال اتاری گئی ، ان کی ڈھوک سیداں کو دیول سے کاٹ کر یو سی بیروٹ کا حصہ بنا دیا گیا۔

بعض کولوں کا خیال ہے کے کہ دیول اور ہزارہ کی صوبائی بائونڈری یعنی آڑی انگریزوں نے بنائی تھی، مگر یہ درست نہیں، یہ بائونڈری سولہویں صدی میں دھونڈ عباسیوں کے دو خاندانوں ہجال اور لہرال میں اراضی کے ایک جھگڑے کو نمٹانے کی نشانی ہے جسے سکھوں اور انگریزوں دونوں نے برقرار رکھا، انگریزوں نے صرف اتنا رد و بدل کیا کہ انہوں نے دیول کی ڈھوک سیداں کو پنجاب سے نکال کر ہزارہ کی یو سی بیروٹ کے ساتھ ملا دیا۔(بحوالہ تاریخ گکھڑاں از راجہ حیدر زمان کیانی)

سترھویں صدی میں گکھڑوں نے یہ  سمجھ لیا تھا کہ تعلیم کے بغیروہ دیول میں اقتدار بر قرار نہیں رکھ سکتے کیونکہ مقامی قبائل ان کے "کنکوت نامی ایک ٹیکس کیخلاف بغاوت پر آمادہ تھے ، راولپنڈی گزیٹئر کے مطابق گکھڑوں نے وسط دیول میں ایک سکول بنانے کا قصد کیا اور اس کے انتظامات کی ذمہ داری پیر صاحب دیول شریف کے ایک بزرگ عبداللہ علوی کے کندھوں پر ڈالی، اور اس کے عوض ان کی تمام ذمہ داریاں بھی گکھڑ حکومت نے اپنے سر لیں، انیسویں صدی کے آغاز میں گکھڑ اقتدار کے خاتمہ اور سکھوں کی وجہ سے سیاسی ابتری کے دوران اس سکول نے علی گڑھ یونیورسٹی جیسی تحریک کی بنیاد ڈالی اور سکھوں سے نفرت کی یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ نہ صرف اٹھارہ سو چھتیس میں ہری سنگھ نلوہ نے یہاں چڑھائی کی بلکہ مولانا ہاشم علوی سمیت یہاں کے تین ہزار حریت پسندوں کو شہید کیا اور ان کی لاشوں کو پنجاب ہزارہ سرحد پر موجودہ کرکٹ سٹیڈیم کے مقام پر قلعہ بنیادوں میں ڈال کر دیواریں اٹھائی گئیں مگر اس کے باوجود اہلیان دیول اور پیر صاحب کے اجداد نے یہ سکول بند نہ ہونے دیا، آج کل یہ تاریخی سکول پھر قلعہ کے مقام پر علم کی کرنیں بکھیر رہا ہے، اوسیا کا زمینداری پرائمری سکول بعد میں مڈل، پھر ہائی اور اب ہائر سیکنڈری سکول کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کے پہلا طالبعلم راجہ دلیر خان تھے جبکہ اس علمی درسگاہ سے سابق وزیر اعلی اور موجودہ گورنر  کے پی کے سردار مہتاب احمد خان، جنرل (ر) ریاض عباسی،  بریگیڈئر تاج عباسی، ائر کموڈور خاقان عباسی، سابق صدر ضیا الحق کے معالج حکیم قاضی ظفیرالحق علوی چشتی، ڈاکٹر حکیم محمود احمد خان جدون قادری، جنرل انیس عباسی، معروف اعوان دانشور محبت حسین اعوان سمیت بے شمار نامور لوگ فارغ التحصیل ہیں،بریگیڈئر تاج عباسی نے ماہنامہ ڈیفنس جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اوسیا ہائی سکول میں ہمارے اساتذہ میں ہندو اور سکھ بھی شامل تھے جو بغیر کسی مذہبی تعصب کے تعلیم ڈیلیور کر رہے تھے،بریگیڈئر صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے مسلمان اساتذہ میں  محمد خاقان اور (باسیاں کے) قاضی ظفیرالحق علوی چشتی سب سے قابل اور نمایاں معلمین تھے، سکھ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق ہائی سکول اوسیا کے ریاضی کے  ایک ہندو استاد بھگت سنگھ کوانیس سو سنتالیس میں اس وقت اس کے ہونہار طلبا نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاہم اسے اس کی بھنک پڑ گئی اور وہ دریائے جہلم کی طرف بھاگ نکلا مگر تیراکی نہ جاننے کی وجہ سے ڈوب گیا، دیول کا پہلا گرلز سکول انیس سو چوبیس میں قائم ہوا جبکہ اس کی طالبہ سعیدہ خاتون اپ گریڈیشن کے بعد ہائر سیکنڈری کا درجہ ملنے کے بعد اس کی پہلی پرنسپل تعینات ہوئیں، اس وقت دیول یونین کونسل میں دو بنک، ایک وٹرنری ہسپتال، تین لنک روڈز اور ایک یوٹیلیٹی سٹور موجود ہے اور اب اسے ماڈل ویلیج قرقر دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔

اہلیان دیول نے بالواسطہ ہی سہی مگر قیام پاکستان سے پہلے اپنا اہم کردار ادا کیا، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ نے اوسیا میں سکول کے  سامنے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی اور کوہسار میں پہلا جمعہ پڑھایا، سب سے اہم بیداری کی لہر مارچ انیس سو چوالیس میں پیدا ہوئی جب یہاں کے قلعہ گرائونڈ میں مسلم لیگ کا سردار نور خان کی زیر صدارت ایک جلسہ ہوا، جس کے مہمان خصوصی حکیم عبدالخالق علوی تھے، اس سے مقامی ہندو آبادی اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ ان کی اپیل پر مری انتظامیہ نے برطانوی فوج کی جاٹ رجمنٹ اور پولیس کی بھاری نفری دیول میں تعینات کر دی،  چھبیس جولائی کو جب قائد اعظم سری نگر سے مری جا رہے تھے تو لوئر دیول کے مقام پر اہلیان دیول نے بابا امیر احمد خان کی قیادت میں اپنے محبوب رہنما کا استقبال کیا اور انہیں گلدستہ پیش کیا،

قیام پاکستان کے بعد اہلیان دیول اوسیاہ نے علاقائی اور قومی سطح پر بھی شاندار کارنامے انجام دئے، عسکری محاذ پر دیول کے فرزند انیس سو پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں اگلے مورچوں پر نظر آتے ہیں، جہاد افغانستان میں بھی ان کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں، اس وقت شاہد خاقان عباسی وفاقی وزیر پٹرولیم ہیں تاہم ان کے ووٹروں کا ان سے جائز گلہ بھی ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے اوسیا کی ایک غیر معروف ڈھوک دیول اس لئے آج دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے کہ یہاں پر کوہسار کی سب سے پہلی درسگاہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے فرزندوں نے پاکستانی قوم کو کچھ ڈیلیور کیا ، ورنہ ہزارہ کی پڑوسی یونین کونسل بیروٹ کے سکولوں کے انہدام پر تو سرکل بکوٹ کے حکمرانوں کے دلوں میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور بیروٹ کے بکرے اپنے قصائیوں کے ہاتھ میں خون آلود چھرے دیکھ کر انہیں چوم بھی رہے ہیں۔ (یہ آرٹیکل اٹھائیس اکتوبر دوہزار پندرہ کے روزنامہ آئینہ جہاں کے کلر ایڈیشن میں شائع ہوا ہے)


حوالہ جات  
 *ابسنٹ لارڈ، ایکسکیٹس اینڈ کنگز ان اے جین ریشوایل کلچر از ڈاکٹر لارنس اے باب
*راج راپسودیس، ٹویزم، ہریٹیج اینڈ دی سیڈکشن آف ہسٹری از ڈاکٹر اہم ویسگرائو
*جین کمیونیٹی، اے سوشل سروے از وی اے سانگیو
*تاریخ گکھڑاں از راجہ حیدر زمان کیانی
*پاکستان سٹوپاز اینڈ اکونومیا از عزیز احمد 
*فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، جلد چہارم
*جرنل آف  پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی ، دوہزار پانچ
*میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنزازبینی گپتا
*رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری از سوزی جے تھاروکی جے للیتا
*پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل اسلام آباد
*دی لیجیسی آف کشمیر، لداخ اینڈ سکردوازآرتھر نیل 
*ماہنامہ ڈیفنس جرنل کو بریگیڈئر تاج عباسی کا انٹرویو 
*سکھ انسائیکلو پیڈیا 
 مقامی اردو مصادر و مراجع  
*کیگوہر نامہ، ترجمہ از ڈاکٹر سید عبداللہ (یہ گکھڑوں کی سرکاری تاریخ ہے، یہ کتاب مجھے فائز اختر کیانی صاحب نے مرحمت فرمائی ہے)
*تاریخ مری از نور الہی عباسی 
*داستان مری از پروفیسر کرم حیدری
*تاریخ علوی اعوان از محبت حسین اعوان
*ید بیضا از حضرت پیر محمد ازہر بکوٹیؒ
*خروج جنت سے عروج عباسیہ تک از نعیم عباسی (برائے شجرہ جات اہلیان بیروٹ) 
*ستی سماج از صبیر ستی ایڈووکیٹ (کوہسار کا زرعی تمدن اور اس کا قبائل سے تعلق)
*تاریخ ستیاں از صبیر ستی ایڈووکیٹ (کیٹھوالوں کے شجروں کیلئے استفادہ کیا)
 بیرونی روابط ، ویب سائٹس
1 یونین کونسل دیول
2 دیول سے دیول شریف تک
3 دیول کا جغرافیہ 
4 دیول میں لینڈ سلائیڈنگ
5 دیول میں لینڈ سلائیڈ۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔کیوں؟
6 مختصر تاریخ مری
7 پیر صاحب دیول شریف کا ایک یادگار خطبہ 
8  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دیول شریف بھی دیکھا 
میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریگیڈئر تاج عباسی کا انٹرویو
10  مری کی سیاسی تاریخ از وجیہہ احمد عباسی، کنڈاں
11 اوسیا اور بیروٹ کی تعلیمی تاریخ  



>NEXT>